10TH CLASS FULL COURSE

10th class Urdu to English Translation Paragraphs Notes

10class english paragraphs

Here are the 10th class Urdu to English translation Paragraphs easy Notes

CLICK  TO DOWNLOAD 1oth class ENGLISH TRANSLATION

Download pdftranslate englishParagraph No. 1

میرے گھر کے سامنے ایک باغ ہے ۔ اس میں بہت سے پودے اور درخت ہیں۔ بہار کے موسم میں کئی رنگ کے پھول کھلتے ہیں۔ ان کی خوشبو اردگرد پھیل جاتی ہے۔ شام کو باغ آدمیوں، عورتوں اور بچوں سے بھر جاتا ہے لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں اور لطف اٹھاتے ہیں۔ بچے باغ میں دوڑ تے ہیں۔ اب وہ یہاں ہیں اور دوسرے لمحے وہ باغ کے دوسرے کونے  میں ہیں۔ ہر شام میں بھی باغ میں سیر کے لیے جاتا ہوں۔ بہت سے مالی باغ کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

There is garden in the front of my house. There are many plants and trees in it. Flowers of many colours bloom in spring season. Their fragrance spreads around. The garden is filled with men, women and children. In the evening people walk about and enjoy themselves. Children run in the garden. Now they are here and the next moment they are in the other corner of the garden. I also go for a walk every evening in garden. Many gardeners look after the garden.

Paragraph No. 2

زندگی کے نشیب وفراز میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب انسان بالکل نا امید ہو جاتا ہے ۔اسے ہر طرف اند ھیر اہی اندھیرا نظر آتا ہے ار اس کی مقابلے کی سکت ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ بات انسان کی عظمت کے خلاف ہے دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ اس عزم وہمت کا نتیجہ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی  ہے۔ انسان کو چاہیے کہ کبھی ہمت نہ ہارے بلکہ مردانہ وارنا کامیوں کا مقا بلہ کرے۔ اللہ تعا لیٰ ایک دن ضرور کامیابی عطا کرے گا۔

Such moments of ups and downs come in man’s life. When man totally loses his hope. He looks darkness all around and his power of competition ends. It is against the dignity of man. All the progress in the world is the result of determination and perseverance that god has granted to the man. Man should never lose heart instead he should face failures manly. One day God shall bless him with success.

Paragraph No. 3

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گیدڑایک دریا کے کنارے رہتا تھا ۔ دریا کے دوسرے کنارے پر خربوزے کے بہت سے کھیت تھے۔ دریا گہرا اور چوڑا تھا۔ گیدڑ جی بھر کر کھا نا چا ہتا تھا۔ وہ دریا عبور نہیں کر سکتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے دوست اونٹ سے کہا” اگر تم مجھے دریا کے دوسرے کنارے لے چلو تو میں بہت شکر گزار ہوں گا۔” اونٹ رضا مند ہو گیا۔ گیدڑ اونٹ کی پیٹھ پر چھلانگ لگا کر چڑھ گیا۔ اونٹ دریا میں سے چلتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ گیدڑ خربوزوں کے کھیت میں گھس گیا اور مزے سے خر بوزے کھا نے لگا۔

Once upon a time a jackal lived on the bank of a river. There were many melon fields on the other side of the river. The river was deep and wide. The jackal wanted to eat to his fill. He could not cross the river. One day he said to his friend camel, “If you take me to the other side of the river, I shall be very grateful to you”. The camel agreed. The jackal jumped on to the back of the camel. Wading through the river the camel reached to the other bank. The jackal went into the melon’s field and began to eat melons with relish.

Paragraph No. 4

ڈرہے کہ چند سال بعد دنیا کا تیل ختم ہو جائے گا۔ہر ملک یہ کوشش کر رہا ہے کہ تیل کے مزید ذخیرے دریافت کرے ۔ معلوم نہیں کہ یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہو گی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی تیل کی ضروریات کو کم کریں۔ صنعت و زراعت میں تیل کی کھپت کو کم نہیں کی جا سکتا ،البتہ نجی ضرورتوں کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ با ہر سے کاروں کی جگہ بسیں درآمد کریں۔ تا کہ طالب علموں کے لیے بسوں کی سہولت کو بہتر بنایا جاسکے۔

There is fear that oil of world will run out. After some years. Every country is trying to discover more reserves of oil. It is not known how far this effort will succeed. It is the need of hour that we should cut short our oil needs. The consumption of oil in industry and agriculture cannot be lessened. However private need can be minimised. We should import buses in place of cars so that the facility of buses may be improved for the students.

Paragraph No. 5

میں دسویں جماعت میں پڑ ھتا ہوں۔ جس سکول میں میں پڑھتا ہوں وہ شہر کا ایک مشہور سکول ہے ۔ میری جماعت کو چارا ستاد پڑھاتے ہیں ۔ وہ سب کے سب بہت قابل ہیں ۔لیکن مجھے سب سے زیادہ مسٹرز ید پسند ہیں۔ وہ ہمیں انگریزی اور حساب پڑھاتے ہیں۔ انکے پڑ ھانے کا طریقہ اتنا اچھا ہے کہ جو کچھ وہ پڑ ھاتے ہیں فوراً یاد ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ا ن کی جماعت کا نتیجہ سوفی صد ہوتا ہے۔

I read in 10th class. The school in which I study is a famous school of the city. Four teachers teach my class. They are also able. But I like Mr.Zaid most of all. He teaches us English and Mathematics. His method of teaching is so good that we learn very soon whatever he teaches us. This is why his class shows hundred percent results.

FOR FULL CHAPTER /HALF CHAPTER,CHAPTER WISE TEST SERIES +PAPT PAPERS CLICK  BELOW!

english tests (10th) 10classenglish

Paragraph No. 6

ایک کنجوس تھا۔ ایک دفعہ اس کا بٹواگم ہو گیا۔ بٹوے میں ایک سوروپے تھے۔ اس نے اعلان کیا ۔”جو میرا بٹواڈھونڈ کر لائے  گا میں اسے دس روپے وونگا” ایک دن  ایک کسان اس کا بٹوالے کر آیا۔ کنجوس نے بٹوا دیکھا ۔ اس میں پورے سو روپے تھے۔ جب کسان نے اپنا انعام مانگا تو کنجوس نے کہا” میرے بٹوے میں ایک سو دس روپے تھے۔ اب صرف سو ہیں۔ تم پہلے ہی دس روپے لے چکے ہو”

There was a miser. Once he lost his purse. There were one hundred rupees in the purse. He announced “ I shall give him ten rupees who finds my purse and brings it to me”. One day, a farmer came with his purse. The miser saw the purse. There were exact one hundred rupees in it. When the farmer demanded his reward, the miser said” There were one hundred and the rupees in my purse. Now there are only one hundred you have already taken ten rupees”.

Paragraph No. 7

انار کلی لاہور کا مصروف ترین  بازار ہے ۔ یہ ہمیشہ لوگوں سے بھرا رہتا ہے ۔ دوکانیں رات گئے کھلی رہتی ہیں۔ آپ یہاں  تقر یباً ہر قسم کی چیزیں خرید سکتے ہیں۔ کچھ لوگ یہاں سے اشیاء خرید نے آتے ہیں لیکن بہت سے لوگ صرف سیر وتفر یح کے لیے آتے ہیں۔ انار کلی میں بہت سے پھیری والے بھی ہوتے ہیں ۔ وہ بٹن ، فیتے ، سوئیاں،کلپ اور اس قسم کی دوسری اشیاء بیچتے ہیں۔ کچھ  جیب تراش بھی انارکلی میں آتے ہیں۔ اگر آپ انار کلی جائیں تو ان جیب تراشوں سے ہو شیار رہیں۔

Anarkali is the busiest bazar of Lahore. It is always crowded with people. Shops remain open till late at night. You can buy almost all kinds of goods from here. Some people come here to buy things but many people come just for recreation. There are many hawkers in Anarkali. They sell buttons, laces, needles, clips and other things of this kind. Some pick pockets also come into Anarkali. Beware of these pick pockets if you visit Anarkali.

Paragraph No. 8

والد ین کی عزت کرنا ہمارا اخلاقی فرض ہے ۔ وہ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں خوراک دیتے ہیں۔ وہ ہمیں لباس دیتے ہیں۔ وہ ہمیں تمام چیزیں مہیا کرتے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے  ۔ وہ ہمیں سکول بھیجتے ہیں۔ تا کہ ہم تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی خدمت کریں۔ اس سے ہمیں راحت ملے گی۔

It is our moral duty to respect the parents. They take much care of us. They feed us. They give us clothes. They provide us all those things which we need. They send us to school. So  that we may serve them after getting education. It will bring comfort to us.

Paragraph No. 9

ایک دفعہ دو دوست سفر پر روانہ ہوئے ۔ انہوں نے  ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ  وہ ایک دوسرے کی مصیبت میں مدد کریں گے۔ وہ ایک جنگل میں پہنچے ۔ انہوں ایک ریچھ کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ان میں سے ایک بھا گا اور درخت پر چڑھ گیا۔ اس کا دوست درخت پر  نہ چڑ  ھ سکا۔ وہ لیٹ گیا اور دم سادھ لیا۔

Once two friends set on a journey. They promised to help each other in trouble. They reached in a jungle. They saw a bear coming towards them. One of them ran and climbed up a tree. His friend could not climb up the tree. He lay down and held his breath.

Paragraph No. 10

شہر آنے سے پہلے ہم گا ؤں میں رہتے تھے۔ گاؤں میں ہم لوگ بہت خوش تھے۔ ہم صبح سویرے اٹھتے  تھے۔ منہ ہاتھ دھو کر نماز پڑھتے پھر سر سبز کھیتوں میں سیر کے لیے جاتے ۔ دوپہر کو درختوں کی چھا ؤں میں سوتے تھے۔ گا ؤں کے پاس ایک ندی بہتی تھی اس کا پانی صاف اور ٹھنڈ اتھا۔

Before coming to the city, we lived in a village. We were very  happy in the village. We got up early in the morning . After washing our hands and face, we offered the prayers. Then we went out  in lush green fields, for a walk. We slept under the shade of trees at noon. A stream ran by near the village. Its water was clean and cool.

Paragraph No. 11

ایک دفعہ ایک کوا پیاسا تھا۔ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑا لیکن اس کو پانی نہ ملا ۔ بالآخر وہ ایک باغ میں پہنچا۔ وہاں اس نے پانی کا ایک گھڑا دیکھا ۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے گھڑے میں دیکھا۔ پانی اتنا نیچے تھا کہ اس کی چونچ پانی تک نہ پہنچ  سکی ۔کوا سیانا تھا ۔ اسے ایک ترکیب سوجھی۔

Once a crow was thirsty. He flew from one place to another but found the water nowhere. At last he reached in a garden. He saw a pitcher of water there. He became very happy. He looked into the pitcher. The water was so low that his beak could not reach the water. The crow was wise. He hit upon a plan.

Paragraph No. 12

اڑھائی سو سال سے زیادہ کا عر صہ گزرا ہے ۔ جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کا  نام جارج فریڈرک ہینڈل تھا۔ اس کا والد مشہور ڈاکٹر تھا۔ بوڑھے ڈاکٹر نے ایک دن اپنے بیٹے سے کہا جارج تم بھی ایک دن شہرت پاؤ گے۔ شاید تم بھی بڑے ڈاکٹر بنو گے یا جج ۔ جارج نے جواب دیا “میں نہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں نہ جج میں اپنی زندگی موسیقی کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں ” اور وہ واقعی ایک دن بڑا موسیقار بن گیا۔

More than two hundred fifty years ago a boy lived in a small town of Germany. His name was George Fredrick Handle. His father was a famous doctor. One day, the old doctor said to his son, George you will also earn fame one day. You will either become a great doctor or a judge. George replied, I shall neither become a doctor nor judge. I want to devote my life to music. And one day he really became a great musician.

Paragraph No. 13

کراچی ایک خوبصورت اور اہم شہر ہے ۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ۔یہ بحیرۂ  عرب کے ساحل پر واقع ہے ۔یہاں کی آب وہوا معتدل ہے ۔ یہاں نسیم بری اور نسیم بحری چلتی رہتی ہیں ۔ایک وقت کراچی پاکستان کا دارلحکومت تھا۔ یہ ایک بندر گاہ ہے ۔ دوسرے ملکوں سے ہماری  تجارت اسی بندر گاہ کے ذریعے ہوتی ہے۔ ہمارے  محبوب رہنما قائداعظمؒ کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا مزار بھی اسی شہر میں ہے ۔ جو لوگ بھی کراچی جاتے ہیں ، قائد اعظم ؒ کے مزار پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔

Karachi is a beautiful and important city. Karachi is the biggest city of Pakistan. It is situated on the shore of Arabian sea. The climate here is temperate. Land breeze and sea breeze blow here. Once Karachi was the capital of Pakistan. It is a sea port. Our trade with other countries is done through this port. Our beloved leader Quaid-e-Azam was born in Karachi. His tomb is also in this city. The people who go to Karachi offer Fateha at the tomb of Quaid-e-Azam.

Paragraph No. 14

جو ہری توانائی کو انسان کے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے  ۔ اسے دنیا کو تباہ کرنے کے لیے  بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ جو ہری توا نائی  ہمارے لیے بجلی پیدا کر سکتی ہے ۔ کراچی میں ایک بجلی گھر ہے۔ آج کل جو ہری تو انائی سے پیدا کی جانے والی بجلی سستی ہونے کے امکان موجود ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ جوہری توانائی کو صرف پُر امن مقاصد کے لیے استعمال کریں۔

Atomic energy can be used for the benefit of man. It can also be used to destroy the world. Atomic energy can produce electricity for us. There is a power house in Karachi. Now-a-days there are chances of cheap electricity produced by the atomic energy. We should use the atomic energy only for peaceful purposes.

Paragraph No. 15

انور میرا سب سے بہترین دوست ہے ۔ اس کے والد ایک استاد ہیں۔ وہ بہت نیک اور ایماندار آدمی ہیں۔ انور ہمارے گھر کے قریب ہی رہتا ہے ۔اس کا مکان بہت اچھا اور خوبصورت ہے ۔ ہم اکٹھے سکول جاتے ہیں۔ شام کو میں اس کے گھر جاتا ہوں۔ ہم اکٹھے پڑھتے ہیں۔ وہ امتحان میں ہمیشہ اول آتا ہے ۔ وہ صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہے۔

Anwer is my best friend. His father is a teacher. He is very pious and honest man. Anwer lives quite near to our house. His house is very fine and beautiful. We go to school together. I go to his house in the evening. We study together. He always stands first in the class. He wears neat and clean clothes.

Paragraph No. 16

دو دھ ایک مکمل غذا ہے۔ یہ میٹھا اور لذ یذ ہوتا ہے ۔ اس کا رنگ سفید ہوتا ہے ۔ ہم زیادہ تر دودھ گائے  اور بھینس سے حاصل کرتے ہیں۔ دودھ ہمیں صحت مند اور طا قتور بناتا ہے ۔ہم اس سے دہی ، مکھن اورپنیر بھی بناتے ہیں۔ بچوں اور مریضوں کے لیے دودھ بیش قیمت غذا ہے ۔ دودھ کو ہمیشہ ابال کر استعمال کرنا چاہیے۔

Milk is a perfect diet. It is sweet and delicious. Its colour is white. We mostly get milk from cow and buffalo. Milk makes us healthy and powerful. We also make curd, butter and cheese from it. Milk is a precious diet for children and patients. Milk should always be used after boiling.

Paragraph No. 17

شیر ایک طا قتور جانور ہے ۔یہ دیکھنے میں بہت خوف ناک نظر آتا ہے اس کی گردن پر لمبے لمبے بال ہوتے  ہیں۔یہ افر یقہ اور ایشیا کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ غاروں میں رہتا ہے اسے جنگل کا بادشاہ کہتے ہیں۔یہ انسان کا بڑا دشمن ہے ۔لیکن شکاری اس کے بچوں کو چُرا لیتے ہیں ۔ وہ ان کو سُد ھاتے اور سرکس میں ان سے کام لیتے ہیں۔

Lion is a powerful animal. It looks very terrible. It has long hair round its neck. It is found in the jungles of Africa and Asia. It lives in caves. It is called the “King of Jungle”. It is the wrost enemy of man. But the hunters steal its cubs. They train them and make them perform in circus.

Paragraph No. 18

ایک نوجوان باغ میں بیٹھا تھا ۔ وہ کچھ فکر مند تھا۔ کچھ دیر کے بعد ایک بوڑھا  آدمی باغ میں داخل ہوا۔ اس نے نوجوان کو ایک خط دیا۔ نوجوان نے خط کھولا اور اسے پڑھا ۔ وہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوا ۔ اس کے فکر مندی کے آثار غائب ہو گئے۔ اس نے بوڑھے آدمی کا شکر یہ ادا کیا۔

A young man was sitting in a garden. He was a bit worried. After sometime an old man entered in the garden. He gave a letter to the young man. They young man opened the letter and read it. He became very happy to read the letter. His sings of anxiety disappeared. He thanked the old man.

Paragraph No. 19

لا ہور ایک پرانا اور تاریخی شہر ہے ۔یہ دریائے راوی کے کنارے پر واقع ہے ۔یہ صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہے ۔ اس شہر میں بہت سی تاریخی عمارتیں ہیں۔ بادشاہی مسجد دنیا کی سب سے بڑی مسجدوں میں  سے ایک ہے ۔ شاہی مسجد کے پاس ہی علامہ اقبال ؒ   کامزار ہے ۔ اقبال نے ہم کو پاکستان کا تصور دیا تھا۔ قرارداد پاکستان لاہور میں ہی منظور کی گئی تھی۔ مینار پاکستان اُسی قرار داد کی یاد میں تعمیر کیا گیا ۔ یہ اقبال پارک میں تعمیر کیا گیا۔

Lahore is an old and historical city.  It stands on the bank of river Ravi. It is the capital of Punjab province. There are many historical buildings in this city. Badshahi Masjid is one of the greatest mosques of the world. The tomb of Allama Iqbal lies quite near to Badshahi Masjid. Iqbal had given us the idea of Pakistan. Pakistan resolution was also passed in Lahore. Minar-e-Pakistan was built in the memory of that resolution. It was built in Iqbal Park.

Paragraph No. 20

الہ دین چین کے شہر بیجنگ میں رہتا تھا۔ اس کا والد درزی کا کام کرتا تھا۔ وہ بہت محنتی شخص تھا۔ الہ دین ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ الہ دین اور اس کی والدہ نے بہت افلاس کی زندگی گزاری ۔الہ دین بہت کاہل تھا۔ وہ تما م دن گلیوں میں کھیلتا اور کوئی کام نہیں  کرتا تھا۔ البتہ وہ جسمانی طور پر مضبوط اور طا قتور تھا۔

Aladdin lived in Beijing a city on china. His father worked as a tailor. He was a very hardworking man. Aladdin was still young when his father died. Aladdin and his mother spent a life in poverty. Aladdin was very sluggish. He played whole day in streets and did nothing. Although he was physically strong and powerful.

Paragraph No. 21

چڑیا گھر میں ہم  نے بہت  سے جانور دیکھے ۔ یہ جانور ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ہم سب بہت خوش ہوئے۔ میرا چھوٹا بھائی خاص طور پر خوش ہوا۔ جب اس نے مور دیکھا تو خوشی سے اچھلنے لگا۔ اس نے ابا جان سے کہا”ابا جان” کیا آپ مجھے ایک مور خرید کر دے سکتے ہیں؟”  یہ بہت خوبصورت جانور ہے۔ ابا جان نے بتا یا کہ یہ مور بیچنے کے لیے نہیں ہیں۔

We saw many animals in the zoo. We had never seen these animals before. We all became very  happy. Particularly, my younger brother was very pleased. When he saw the peacock he began to jump with joy. He said to the father, “Father can you buy a peacock for me?” It is very beautiful animal. The father told that those peacocks were not for sale.

Paragraph No. 22

میری والدہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہے ۔ وہ میری صحت کا ہمیشہ خیال رکھتی ہے ۔ ایسی خوراک پکاتی ہے جو میں پسند کرتا ہوں لیکن مجھے زیادہ کھانے سے روکتی ہے ۔ مجھے اچھے اچھے کپڑے دیتی ہیں ۔ زیادہ قیمتی کپڑوں کے خلاف ہیں ۔ مجھے باقاعدہ کتابیں پڑھاتی ہیں ۔ میں انگریزی میں ذراکمزورہوں لہٰذا انھوں نے میرے لیے ایک استاد رکھا ہے ۔ مجھے روزانہ پڑھنے کی تاکید کرتی ہیں۔

My mother loves me very much. She always takes care of my health. She cooks such food that I like. But she warns me from overeating. She gives me fine clothes. But she is against the much costly clothes. She teaches me books regularly. I am a bit poor in English. Therefore she has employed a tutor for me. She urges me to study daily.

Paragraph No. 23

اورنگ زیب بڑا نیک دل اور خداترس بادشاہ تھا۔ وہ بہت سویرے جاگ اٹھتا اور خدا کی عبادت کیا کرتا تھا ۔اس نے اپنے عہد حکومت میں یہ حکم جاری کر رکھا تھا کہ صبح بستر سے اٹھ کر خدا کی عبادت کرو۔ اور نیک کام کر و تاکہ سارادن خوشی خوشی گز رجائے ۔وہ خود سورج نکلتے ہی دربار لگاتا۔ غریبوں، محتاجوں اور مظلوموں کی فریاد سنتا۔ وہ ان سے محبت سے پیش آتا۔ نہایت توجہ سے ان کا حال پوچھتا اور ان کی مرادیں پوری کرتا۔

Aurangzaib was a kind hearted and God fearing king. He used to get up early in the morning and worshipped God. During his reign he had issued an order to leave the bed early, pray to God and do noble deeds so that whole day might be spent happily. He himself held the court with sunrise, listened the appeals of the poor’s, needy and oppressed. He treated them with love. He asked about their wellbeing with great attention and fulfilled their wishes.

    Paragraph No. 24

 یہ نوجوان قائدا عظمؒ کو قتل کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ کوئی آس پاس نہیں ہے اس نے تیزی سے چا قو نکا لا وہ قائداعظم ؒ کی طرف لپکا۔ اللہ تعالی ٰ نے قائد اعظمؒ کو بہت عقل اور حوصلہ عطا کیا تھا۔ انھوں نے اپنا لمبابازو بڑھا کرقاتل کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑلیا۔ انھوں نے اپنے پرائیو یٹ سیکرٹری کو آوازدی۔ مجرم کو گرفتار کر لیا گیا۔ تمام لوگوں نے دیکھ لیا کہ قائداعظمؒ بہادر انسان تھے۔

This Youngman had come with the intention of killing Quaid-e-Azam. When he saw that nobody was close by, he quickly pulled out a knife. He rushed towards the Quaid-e-Azam. God had blessed the Quaid with much courage and wisdom. He stretched out his long arm and caught the killer’s hand tightly. He called out his private secretary. The criminal was arrested. All the people saw that Quaid-e-Azam was a brave man.

    Paragraph No. 25

 حضرت محمدﷺ مکے میں پیدا ہوئے۔ آپﷺ کے والد کا نام عبداللہ تھا۔ آپﷺ کے دادا نے آپﷺ کی پرورش کی۔ جب آپﷺ پچیس برس کے ہو گئے تو آپﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کر لی ۔جب آپﷺ چالیس برس کے ہوئے تو آپﷺ نے کہا کہ میں پیغمبر ہوں۔ میری بات غور سے سنو۔ خدا ایک ہے اس کی عبادت کرو۔

Hazrat Mohammad (S.A.W) was born in Makkah. His father’s name was Hazrat Abdullah. His grand father brought him help. When he became twenty five years old, He (S.A.W) married with  Hazrat Khadija (R.A). When he (S.A.W) became forty years old. He said, I am prophet. Listen to my words carefully. God is one worship him.

Paragraph No. 26

پرانے زمانے میں کابل میں ایک سوداگر رہتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا تھا۔ سودا گر کے بیٹے کو بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ باپ نے اس کو پوری توجہ سے پڑھایا۔ اسے اچھے اچھے استادوں کے پاس بھیجا۔ اچھےاچھے مدرسوں میں تعلیم دلوائی اور اچھی سے اچھی کتابیں مہیا کیں نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جوان ہوتے ہوتے اس زمانے کے اکثر علوم میں ماہر ہو گیا۔ اس کے علم کی شہرت بادشاہ تک پہنچی تو وہ بہت خوش ہوا۔بادشاہ نے سودا گر کے بیٹے کو وزیر بنا لیا اور اپنا ہر کام اس کے مشورے سے کرنے لگا۔

In olden days a merchant lived in Kabul. He had a son. The merchant’s son was fond of studies since childhood. Father got him educated with great care. He sent him to able teacher’s got him educated in good schools and provide him good books. As a result by growing into youth, he became skilful in most branches of knowledge of that time. When the fame of his learning made its way to the king, he became very pleased. The king made the merchant’s son his minister and began to do his every job with his consultation.

Paragraph No. 27

یہ ہمارا مکان ہے ۔ جب ابا جان  نے یہ مکان خریدا، میری عمر صرف پانچ سال تھی ۔ دس برس سے میں اس مکان میں رہ رہا ہوں۔ ہمارا کنبہ بہت بڑا ہے ۔لیکن یہ مکان بہت چھوٹا ہے ۔ ابا جان کہتے ہیں کہ وہ اس مکان کو بیچ دیں گے اور ایک بڑا مکان گلبرک میں خریدیں گے۔ مگر میں اس مکان کوچھوڑنا نہیں چا ہتا۔ مجھے اس مکان سے محبت ہو گئی ہے۔

It is our house. I was five years old when father bought this house. I have been living in this house for ten years. Our family is very large but this house is very small. The father says that he will sell this house and buy a big one in Gulberg. But I do not want to leave this house. I have fallen in love with this house.

Paragraph No. 28

امجد کے والد بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ وہ یتیم ہو گیا۔ اسکا چچا اسے اپنے گھر لے آیا۔ چچا کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کی طرح پرورش کی۔ امجد نے ایم ۔اے کا امتحان پاس کر لیا ور اسے ایک اچھی سی ملازمت مل گئی۔ اب اس کا چچا بوڑھا ہو چکا تھا۔ امجد نے باپ کی طرح اپنے چچا کی خدمت کی ۔ چچا امجد کو اپنا داماد بنا لیا۔ امجد اب اپنی چچا کے کنبے کا ممبر بن گیا۔

Amjad’s father had died in his childhood. He became orphan. His uncle brought him to his house. The uncle had no son. He brought him up as his own son. Amjad passed M.A exams and he got a good job. Now his uncle had grown old. Amjad served his uncle as his own father. The uncle made Amjad his son-in-law. Now Amjad became the member of his uncle’s family.

Paragraph No. 29

حضرت عائشہؓ  حضرت ابو بکر صد یق ؓ کی بیٹی تھیں جو کہ رسول اللہ ﷺ کے گہرے دوست تھے۔ آپؓ  رسول اللہ ﷺ کی بیوی تھیں۔ آپؓ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی تھیں ۔ یہ ایک سادہ  سا کمرہ تھا۔ جس کی چھت نیچی تھی۔ حضرت عائشہؓ گھر کا کام خود کرتی تھیں۔ آپؓ کی زندگی سادہ تھی۔ آپؓ کو رسول اللہ ﷺ سے بڑی محبت تھی ۔ آپ ؓ   بہت ذہین تھیں اور اسلام کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھیں۔

Hazrat Ayesha (R.A) was the daughter of Hazrat Abu Bakr Siddiq (R.A) who was an intimate friend of the Holy Prophet (S.A.W). She (R.A) was the wife of the Holy Prophet (S.A.W). She (R.A) lived in a small room. It was a simple room with low roof. Hazrat Ayesha (R.A) did her household work herself. Her life was simple. She (R.A) had a great love with the Holy Prophet (S.A.W). She (R.A) was very intelligent and knew a lot about Islam.

Paragraph No. 30

ایک دفعہ  کا ذکر ہے کہ ایک کوے کو گوشت کا ٹکڑا ملا۔ وہ درخت کی شاخ پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک لومڑی اُدھر آپہنچی ۔ لومڑی نے دل میں کہا” یہ ٹکڑا مجھے اس کو ے سے حاصل کر چاہیے” اس نے قریب جا کر کوے سے کہا میں نے سنا ہے کہ تم اچھا گا سکتے ہو۔ تمھاری آواز بڑی میٹھی ہے ۔ میں چا ہتی ہوں کہ تمھارے گیت کا مزہ اٹھاؤں۔ کیا تم مہربانی کر کے گانا سناؤ گے۔ اس پر کواخوش ہو گیا۔

Once upon a time a crow got a piece of meat. He sat on the branch of a tree. Mean while a vixen happened to reach there. The vixen said to herself “I should get this piece from this crow”. Coming close to the crow, she said I have heard that: you can sing well. Your voice is very sweet. I wish to enjoy your song.Will you please sing a song? The crow became pleased at his.

Paragraph No. 31

یہ تصویر ہمارے گاؤں کی ہے ۔ گاؤں کے باہر ہرے بھر ے کھیت ہیں۔ اب گرمی کا موسم ہے ۔ سورج خوب چمک رہا ہے ۔ وہ سامنے گندم کے کھیت ہیں۔ گندم کے کھیتوں میں بڑی چہل پہل ہے ۔ جوان،بوڑھے، مرد اور عورتیں مل کر کام کر رہے ہیں۔ فصل پکی ہوئی ہے ۔ دیہاتی اب کٹائی کریں گے اور اپنی فصل کو شہر میں لے جائیں گے ۔ ہمارے گاؤں میں بہت سی قابل دید چیز یں بھی ہیں۔ ہم گاؤں میں خوش ہیں۔ ہم اپنے گا ؤں کو خوبصورت بنائیں گے۔

This is the picture of our village. There are lush green fields out side the village. It is summer season now. The sun is shining brightly. There are wheat fields in front. There is a great hustle and bustle in wheat fields. The young, old, men and women are working together. The crop is ripe. Now the villagers will harvest and take their crop to the city. There are also many worth seeing things in our village. We are happy in the village. We shall make our village beautiful.

Paragraph No. 32

حضرت علی ؓ رسول اکرمﷺ کے چچا کے بیٹے تھے۔ آپ ﷺ کے چچا کا نام ابو طالب تھا۔ ابو طالب امیر نہیں تھے۔ حضرت علی ؓ رسول اکرمﷺ کے پاس رہتے تھے۔ وہ نو سال کی عمر میں مسلمان ہوئے۔ آپؓ نے کئی جنگوں میں حصہ لیا اور کئی کافروں کو قتل کیا۔ آپؓ  حضرت عثمان ؓ کی وفات کے بعد خلیفہ بنے ۔ آپ ؓ چوتھے خلیفہ تھے۔ رسول اکرمﷺ نے اپنی بیٹی کی شادی آپؓ سے کردی۔ حضرت علیؓ بہادر اور عالم تھے۔ آپ ؓ  کو رسول مقبول ﷺ سے بے حد پیار تھا۔

Hazrat Ali (R.A) was the cousin of Holy Prophet (S.A.W). His uncle’s name was Abu Talib Abu Talib was not rich. Hazrat Ali lived with Holy Prophet (S.A.W). He embraced Islam in the age of nine. He took part in many battles and killed many non-believers. He became caliph after the death of Hazrat Usman (R.A). He was the fourth caliph. The Holy Prophet (S.A.W) got married his daughter with him. Hazrat Ali was brave and scholar. He had a great love for Holy Prophet (S.A.W).

Paragraph No. 33

آدمی اپنی قسمت خود بناتا ہے ۔ اس کو چاہیے کہ محنت کرے اور لگن سے کام کرے تا کہ اپنی زندگی میں کامیاب ہوسکے۔ محنت اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اگر ہم ماضی میں نظردوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ جتنے بھی عظیم آدمی گزرے ہیں سب نے محنت اور ہمت سے کام لیا اور اپنی قسمت سنواری۔ ابراہم لنکن امریکہ کا صدر گزرا ہے ۔ اگر ہم اس کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ لکڑے ہارے کا بیٹا تھا لیکن اس کو پڑھنے کا شوق تھا۔

Man makes his own fate himself. He should work hard with devotion so that he may succeed in his life. Hard work is the greatest truth of this world. Which cannot be denied. If we look back into the past we shall come to know that all the great men of the past laboured hard, worked bravely and bettered their fate. Ibrahim Linkon had been the president of America. If we study his life history we shall come to know that he was the son of a woodcutter. But he was fond of studying.

Paragraph No. 34

مد ینہ عرب کا ایک مقدس شہر ہے ۔ یہ مکہ سے قریباً تین سو میل کے فاصلہ پر ہے ۔ کاریں یہ فاصلہ چار پانچ گھنٹے میں طے کرلیتی ہیں۔ مدینہ پیغمبر اسلام ﷺ کا شہر ہے ۔ یہاں کئی مساجد ہیں لیکن سب سے زیادہ مشہور مسجد نبوی ہے ۔ اس مسجد میں رسول اکرم ﷺ کا روضہ مبارک ہے ۔ یہاں ایک لاکھ مسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ مدینہ میں کئی ہوٹل ہیں ۔ یہاں پرانی عمارتیں بھی ہیں۔

Madina is the Holy city of Arabia. It is about three hundred miles away from Makkah. Cars cover this distance in four to five hours. Madina is the city of Holy Prophet (S.A.W). There are many Mosques but Masjid-e-Nabvi is the most famous of all. The sacred shrine of the Holy Prophet (S.A.W) is in this mosque. One lac Muslims can offer prayers here. There are many hotels in Madina. There are old buildings also.

Paragraph No. 35

میں نے شیر کو دور دیکھا ۔ وہ جھاڑیوں میں بیٹھاتھا۔ شیر نے ہمیں نہیں دیکھا۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا تم  یہیں خاموش بیٹھے رہو میں شیر کے قریب جاتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے آہستہ آہستہ شیر کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ اگر میں ذراساشور کرتا تو وہ بھاگ جاتا ۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ وہ مجھے پتوں میں صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے ابھی  تک مجھے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے بڑی احتیاط سے بندوق اٹھائی ۔

I saw a lion from a distance. He was sitting in the bushes. The lion did not see us. I said to my friend, you keep sitting quietly here. I go near the lion. After this I began to advance towards the lion slowly. If I had made a little noise, he would have run away. At last I reached close to him. He was clear in my sight through leaves. He had not seen me yet. I picked up the gun with great care.

Paragraph No. 36

چودھری اسلم کا دوست بڑی مدت کے بعد ملنے کےلیے آیا۔اس نے محسوس کیا کہ چودھری غمگین معلوم ہوتا ہے ۔ اس نے پوچھا چودھری صاحب کیا بات ہے ۔ اداس کیوں رہتے ہو؟  —–   چودھری کوئی خاص بات نہیں۔  —–    ایوب:  خاص نہیں تو عام سہی ، آپ بے چین کیوں ہیں؟   —–   چودھری:  دنیا میں چین کِسے ہے ۔ نہ دن کو چین نہ رات کو آرام۔   —–   ایوب:  دنیا آپ سے متفق نہیں ۔ یہ انسان کی کم ہمتی ہے جو ا س کو مایوس کردیتی ہے ۔

Chaudhary Aslam’s friend came to see him after a long time. He felt that chaudary looked sad. He asked chaudary sahb, what is matter? Why do you look sad? —— Chaudhry: There is nothing special. —– Ayub: If there is nothing special, let it be something general, why are you restless? ——— Chaudhary: Who is in peace in the world? There is neither peace in the day nor at night. ——– Ayub: The world does not agree with you. It is man’s lack of courage which disappoints him.

Paragraph No. 37

یہ سردیوں کی ایک رات تھی ۔ ہم سورہے تھے ۔ یکایک کسی نے دروازہ کھٹکھٹا یا ۔ میں اور میرے والد اٹھ بیٹھے۔ ہم نے سو چا یہ کوئی چور ہو گا ۔ اس لیے  ہم نے بندوق  لے لی ۔ اور دروازے پر آگئے۔ میرے والد نے پوچھا “دروازے پر کون ہے ؟” جواب ملا میں ایک غریب آدمی ہوں اور بھوکا ہوں ہم نے دروازہ کھولا۔ اس کو اندر لے آئے  اور کچھ کھانے کو دیا۔ اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔

It was a winter night. We were sleeping. Suddenly someone knocked at the door. My father and I got up. We thought that it might be a thief. So that we took the gun and came at the door. My father asked,”who is at the door?” There came reply; I am a poor man and hungry. We opened the door got him inside and gave him something to eat. He thanked us and went away.

Paragraph No. 38

اب مڈل تک تعلیم مفت ہوگئی ہے ۔ اب غریبوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ حکومت پاکستان نے کا لج اور سکول اپنے کنٹرول میں لے لیے ہیں ۔ ملک میں ہر شخص کو برابر کے حقوق ہو ں گے ۔ حکومت ذہین بچوں کو وظائف  دے گی۔ وہ اعلی ٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ ہم نیا اور مضبوط پاکستان بنائیں گے۔ ہمیں ملک کی ترقی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

Now education has become free up to Middle standard. Now the children of the poor will also be able to get education. The Govt of Pakistan has taken over the control at colleges and schools. Everybody will enjoy equal rights in the country. The Govt will award scholar ships to the intelligent children. They will be able to get education in higher educational institutions. We shall build a new and strong Pakistan. We should struggle for progress of our country.

Paragraph No. 39

عابی میرے بچپن کی دوست تھی۔ اکٹھے کھیلا پڑھا ۔ پھر میری ایف –اے کے بعد شادی ہو گئی اور میں اپنے میاں کے ساتھ لندن چلی گئی ۔ عابی نے آگے پڑھا یا اس کی شادی ہوگئی      مجھے کچھ خبر نہ ملی۔ جب میں پانچ برس کے بعد وطن لوٹی تو ایک روز بازار میں اچانک عابی کی بڑی بہن سے میری ملاقات ہو گئی ۔ میں نے بے تا بی سے عابی کے

متعلق پوچھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے  لگے۔ میرا گھر نزدیک ہی تھا۔ میں ان کو اپنے ساتھ لے آئی تا کہ وہ اطمینان سے مجھے عابی کے بارے میں کچھ بتا سکیں۔

Abi was my childhood friend. We studied and played together. Then after F.A I was married and I went to London with my husband. Abi studied further or she got married, I did not get any news. When after five years I returned to motherland, suddenly I came across Abi’s  elder sister in the bazar. I asked about Abi anxiously, tears floated in her eyes. My house was quite close. I took her with me so that she might tell me about Abi calmly.

Paragraph No. 40

صدر نے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، مفکروں اور عالموں پرزور دیا ہے کہ اپنی ادبی تخلیقات کے ذریعے ملک کو اسلامی اور فلاحی مملکت بنا نے میں حکومت کی مدد کریں۔ صدر گذشتہ روز ایک کتاب کی تعارفی تقر یب میں شاعروں اور ادیبوں کے بہت بڑے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔

The president has stressed upon the writers, poets, intellectuals, thinkers and scholars to help the Government through their literary works in making the country an Islamic and welfare state. Last day the president was addressing to the big gathering of poets and writers in the introductory ceremony of a book.

Note: This content is taken from 10th class pilot English Grammar and composition and translation . This content is only for educational purposes, for the students who are not able to buy books. we have no intention to harm the work of the writer or any institute or have no intention to copy their work for our own benefit. Thanks!

Sending
User Review
0 (0 votes)

About the author

Litenglishers

Leave a Comment